Friday 26 April 2013

Yeh to Wohi Jaga Hai ...

  ...یہ تو وہی جگہ ہے 

تاریخ کے اوراق پلٹیں اور بیس سال پہلے لکھے گئے ایک باب پر جا رکیں- ایک عرصہ گزر جانے کے باعث یہ باب نظروں  سے اوجھل ہو چکا ہے. ہماری نوجوان نسل بھی اپنی کم عمری کے باعث، اس حقیقت سےناآشنا ہے. اس باب کو پڑھنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ اسے چند کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے 

 یہ دور ہے 1993 کا.  وزیراعظم نواز شریف ہیں اور صدر ہیں جناب غلام اسحاق خان. دونوں میں اختیارات کی جنگ عروج پر ہے. صدر اپنی  بالادستی قائم کرنے پر مصر اور نواز شریف کا اعلان کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا. بلآخر صدر نے اپنا آینی اختیار استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کردی اور وزیراعظم کو گھر بھیج دیا. نوازشریف سپریم کورٹ جا پہنچے اور وہاں سے فیصلہ یہ آیا کے اسسمبلی توڑنے کا قدم غیر آینی تھا. نواز شریف کی حکومت بحال تو ہو گئی لیکن صدر اور وزیراعظم میں ٹھن گئی اورمملکت کا نظام مفلوج ہو گیا. یہ بات واضح تھی کہ دونوں میں سے کم ازکم ایک کو جانا ہو گا. افواج پاکستان کو "مجبوراً"  مداخلت کرنا پڑی اور فیصلہ یہ ہوا کہ دونوں گھر جائیں اور ملک میں عام انتخابات کرا دئے  جائیں. نواز شریف کو اپنی کارکردگی پر اعتماد تھا. انہیں یقین تھا کہ عوام انہیں   دوبارہ منتخب کر لے گی اور وہ ایک واضح اکثریت کے ساتھ ایک مضبوط حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے. یہاں پر نواز شریف سے چوک ہو گئی وہ اس بات کا اندازہ نہ لگا سکے کہ جس اسٹیبلشمنٹ نے غلام اسحاق خان کو کٹھپتلی کے طور پر استعمال کیا وہ انہیں کسی طور دوبارہ حکومت بنانے نہیں دے گی 

اسٹیبلشمنٹ کے لئے مسئلہ یہ تھا کہ نواز  شریف واقعی ایک مقبول وزیر اعظم تھے اور شفاف انتخابات میں ان کی جیت لازم تھی. عوام ابھی پیپلز پارٹی کی نا اہل حکومت کا کرپٹ دور نہیں بھولے تھے. ایسے میں انھیں ایک نئے مہرے کی ضرورت تھی.  نظر جا ٹھہری جماعت اسلامی پر. پرانے "شربت" کو ایک نئی بوتل میں ڈالا گیا اور لیبل لگایا گیا 'پاکستان اسلامک فرنٹ' کا. نعرہ تھا تبدیلی کا اور قوم کو سمجھایا جانے لگا کہ ہمارے مسائل کی ذمّہ دار دونوں بڑی جماعتیں ہیں اور یہ آپس میں ملی ہوئی ہیں. پیسا پانی کی طرح بہایا گیا اور بڑے بڑے جلسوں میں ہدف تنقید خصوصی طور پرنواز شریف کو بنایا گیا. انقلاب کی نوید سنائی گئی اور الیکشن سویپ کر کے حکومت بنانے کے دعوے کۓ گئے. سرکاری میڈیا نے بھی ان کو خوب کوریج دی. دوسری سیاسی  جماعتوں کے قائدین اور دانشوروں نے جماعت اسلامی کی  قیادت کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور 100 سے زائد نشستوں پر تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا  

الیکشن کے نتائج جب سامنے آتے تو پاکستان اسلامک فرنٹ قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں سے صرف 3 پرکامیابی حاصل کر سکی.  مسلم لیگ ن نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے لیکن سب سے زیادہ نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی کے حصّے میں آئیں گو کہ ان کے ووٹوں کی تعداد مسلم لیگ کے مقابلے میں پانچ فیصد کم تھی. نتائج کا خلاصہ مندرجہ ذیل  ہے

نشستیںووٹون  کی تعداد پارٹی
897,578,635پاکستان پیپلز پارٹی
737,980,229مسلم لیگ ن
3645,278پاکستان اسلامک فرنٹ







یہاں پر یہ کہنا کہ پاکستان اسلامک فرنٹ  ناکام ہو گئی، نادانی ہو گی. اسلامک فرنٹ حکومت بنانے میں تو ضرور ناکام  ہوئی  لیکن اپنے اصل ہدف کے حصول میں کامیاب رہی. یہ ہدف تھا مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے سے روکنا. اسلامک فرنٹ کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ کم وبیش انیس نشستوں پر مسلم لیگ ن کی ناکامی کی وجہ اسلامک فرنٹ اور مسلم لیگ کے درمیان ووٹوں کی تقسیم تھی

تاریخ کی کتاب بند کر کے، اب ذرا آج کے حالات پر نظر ڈالیں- وہی مسلم لیگ ن اور وہی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش. فرق ہے تو صرف اتنا کہ پاکستان اسلامک فرنٹ  کی جگہ پاکستان تحریک انصاف انتخابات کلین سویپ کرنے کی دعویدار ہے.  وہی تبدیلی کا نعرہ، وہی 'دونوں بڑی جماعتیں ملی ہوئی ہیں' کی رٹ، وہی  جلسوں میں پیسے کا بےدریغ استعمال، وہی میڈیا کے ذرئیے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش اور وہی ہدف تنقید یعنی نواز شریف. تحریک انصاف کے لئے الیکشن کے نتائج بھی اسلامک فرنٹ کے نتائج سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے.
 لیکن کیا تحریک انصاف مسلم لیگ ن کو اتنا بڑا نقصان پہنچا سکے گی جتنا اسلامک فرنٹ نے پہنچایا تھا؟ عوامی آرا کے جائزے یہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئ نے مسلم لیگ کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا پیپلز پارٹی کو پہنچایا ہے. پنجاب کے عوام، بالعموم، مسلم لیگ کی پنجاب میں کارکردگی سے مطمئن ہیں اور محض تبدیلی کے نام پر اپنا مستقبل داؤ پر لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتے.

 ہماری نئی نسل کا ایک حصّہ اس تاریخی حقیقت سے نا آشنا ہے. تبدیلی کا سہانا خواب ان جوشیلے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے. اگر یہ نوجوان تاریخ کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ خواب ہم کو پہلے بھی دکھائے جا چکے ہیں اور ہم ان کی تعبیر پیپلز پارٹی کی ایک اور کرپٹ اور نا اہل حکومت کی صورت میں بھگت چکے ہیں. الله تعالیٰ پاکستان کو پیپلز پارٹی کے کرپشن اور ناہلی سے بھرپور مزید پانچ سالہ دور حکومت سے محفوظ رکھے. آمین 

3 comments:

  1. سچ پوچھیں تو اسٹیبلشمنٹ کسی طرح بھی سیاست پر اثر انداز نہیں ہو ری. اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ گزشتہ ادوار میں سیاست پر اثر انداز ہوئی اور من پسند نتائج حاصل کرنے کوشش کی. لیکن اب حالات مختلف ہیں. سپریم کورٹ کیس میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2008 کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپکو سیاست سے دور رکھا ہے. فکر کی کوئی بات نہیں اب کی بار جیت ن لیگی کی ہو گی

    ReplyDelete
  2. Very well said! PTI indeed is a new name for Pakistan Islamic Front. Establishment learned in 90s that people don't just fall for Islamic Political parties anymore because there already were several local/regional parties. So this time around, they came up with PTI - a "cool dude" who has a celebrity status....so why not make it look fancy. And thats how PTI was born!

    ReplyDelete
  3. Noon league walo ko apney gareban main to jhankna he nahi ata kal ki iji ke kahani to bhool he gaye hain

    ReplyDelete