Monday 4 April 2016

Panama Papers پاناما پپرز

میں بلاگ بہت کم لکھتا ہوں لیکن کچھ حالات واقعات ایسے ہوتے ہیں جن پر اپنے میڈیا سے حقیقت پسندی کی توقع کم ہوتی ہے. سنسنی پھیلانے کی دوڑمیں میڈیا ان معاملات کے ایسے پہلو نظرانداز کر دیتا ہے جو معاملے کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں. آج قلم (کی بورڈ) اٹھانے کا مقصد پاناما پپرز کے منظر عام پر آنے اور اس میں نواز شریف کے خاندان کا نام موجود ہونے پر روشنی ڈالنا ہے اور کچھ ایسے پہلو اجاگر کرنا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہیں

پاناما پپرز نام ہیں ان ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات کا جو پاناما کی ایک قانونی کمپنی موساک فونیسکا کے دفاتر سے لیک ہوئیں. ان دستاویزات میں تفصیل ہے ان دو لاکھ چودہ ہزار آف شور کمپنیز کی جن کے مالکان کی معلومات عام طور پر خفیہ ہوتی ہیں. ان دستاویزات میں دنیا کے کئی نامور سیاستدانوں کے نام شامل ہیں. پاکستانی میڈیا کے مطابق نواز شریف بھی کچھ آف شور کمپنیز کے مالک ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف نے اپنی کرپشن کی دولت چھپانے کے لئے ان کمپنیز کو استعمال کیا 

ان الزامات کا تفصیل سے جواب دینا تو شریف خاندان کی ذمہداری ہے. ممکن ہے کہ جب تک آپ یہ بلاگ پڑھیں یہ جواب  جاری بھی ہو چکا ہو لیکن میرا مقصد کچھ  دیگر پہلووں کی نشاندہی کرنا ہے. پہلی بات تو یہ کہ نواز شریف کا نام ان دستاویزات میں موجود ہونے کی سٹوری سب سے پہلے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے بریک کی . اس سٹوری کو پڑہیں تو یہ واضح  ہے کہ یہ آف شور کمپنیز نواز شریف کی نہیں بلکہ ان کے بچوں کی ملکیت ہیں. لہٰذا قانوناً نواز شریف ان اثاثوں کے ذمہدار نہیں. اپنی بالغ اولاد کے اثاثوں کا ذکر اپنے ٹیکس کاغذات میں کرنا ان کی قانونی ذمہداری بھی نہیں بنتی

 ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا آف شور کمپنیز کا استعمال غیر قانونی ہے  آف شور کمپنیز کا استعمال غیر قانونی نہیں. اگر ایسا ہوتا تو حسین نواز شریف برطانیہ میں رہتے ہوئے ان کمپنیز کے نام پر پراپرٹیز نہ خرید پاتے . تو پھر حسین نواز کو آف شور کمپنی بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ یہ بات سمجھنے کے لئے پہلے آپ کو ٹیکس ایویژن اور ٹیکس ایوایڈنس میں فرق سمجھنا ہو گا. ٹیکس ایویژن  کا مطلب ہے ٹیکس چوری اور ٹیکس   ایوایڈنس کا مطلب ہے ٹیکس سے بچنا. ٹیکس  ایویژن  غیر قانونی ہے لیکن ٹیکس ایوایڈنس قانونی ہے. دنیا کے لاکھوں قانونی ماہرین اپنے موکلوں کو ٹیکس سے بچنے کے قانونی طریقے بتاتے ہیں . آف شور کمپنیز کا استعمال بھی ٹیکس ایوایڈنس کا ایک قانونی طریقہ ہے. یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ یہاں ٹیکس سے مراد برطانوی ٹیکس ہے. چونکہ حسین نواز شریف ایک طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں اس لئے پاکستان کا کوئی ٹیکس ان پر لاگو نہیں ہوتا. ان کا ٹیکس بچانا قانونی تھا یا غیر قانونی اس کا فیصلہ بھی برطانوی ٹیکس ادارے نے کرنا ہے

اب سوال یہ ہے کہ پھر آف شور کمپنیز بدنام کیوں ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آف شور کمپنیز دنیا بھر میں کرپشن کا پیسہ چھپانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہیں لیکن اگر آپ دیگر تفصیلات پر غور کریں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ  یہاں استعمال ہونے والا پیسہ کرپشن کا نہیں. ایسا میں کیسے کہ سکتا ہوں؟ پہلے تو آپ غور کریں کہ ان کمپنیز کی مذکورہ ٹرانزیکشنز کی مالیت کتنی ہے؟ انڈین ایکسپریس کی سٹوری میں ٹرانزیکشن کی زیادہ سے زیادہ مالیت سات ملین پاؤنڈ ہے. یہ برابر ہے تقریباً ایک ارب روپے کے.ایک ارب روپے آج کے دور میں کوئی بڑی رقم نہیں. اگر آپ شریف خاندان کی کاروباری تاریخ جانتے ہیں تو آپ کو اس رقم کی موجودگی پر بالکل بھی تعجب نہیں ہو گا. اگر آپ نہیں جانتے تو اتنا جان لینا کافی ہو گا کہ انیس سو ستر کی دہائی میں بھٹو کی نیشنالیزیشن پالیسی کے وقت شریف خاندان پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا تھا اور ان کی سٹیل مل اسی جرم میں قومیائی گئی. اس وقت اس خاندان کے کسی فرد کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا. اگر آپ مزید غور کریں تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ یہ پیسہ کرپشن کا نہیں. انڈین ایکسپریس کی سٹوری میں ذکر ہے کہ ان کمپنیز نے اپنی پراپرٹی بینک کے پاس گروی رکھ کر سات ملین برطانوی پاؤنڈ قرض حاصل کیا. کرپشن کی دولت بے حساب ہوتی. جو لوگ کرپشن کا پیسہ چھپانے کے لئے آف شور کمپنیاں بناتے ہیں ان کا مسئلہ کہیں پیسہ کھپانا ہوتا ہے. انہیں بینک کے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی جس پر سود ادا کرنا پڑے

نواز شریف پر دن رات کرپشن کے الزامات لگانے والے اب شور مچا رہے ہیں کہ ان کے الزامات سچ ثابت ہو گئے ہیں. حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے. نواز شریف پر لگنے والے ہر الزام میں اربوں روپے کی کرپشن کا ذکر ہوتا ہے. اگرالزامات درست تھے تو پھر یہ رقم کہاں گئی؟ ان آف شور کومپنیز میں تو اربوں ڈالر موجود ہونے چاہئے تھے جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں. نواز شریف کے پاس دولت ہے یہ کوئی انکشاف نہیں انکشاف البتہ  یہ ضرور ہے کہ  جتنی دولت بیان کی جاتی ہے نواز شریف کے پاس اس کا ایک فیصد بھی نہیں

3 comments:

  1. Daughter of Nawaz Sharif (who was not married at the time) Inherits money in two company for which is she is "Beneficial Owner". She took the ownership in 1993 and she was around 21 years old and was not doing any business. Where from she got this money? One way could be from his father while his father do not declare any such assets even if he got to move the assets out as per your article due to nationalization by Zulafqar Bhotto. If they can provide any satisfactory answer to this question then it should not be a problem.

    ReplyDelete
  2. My Angel, ca you share the paper which says in 1993 she was owner?

    ReplyDelete
  3. میرے بھائي ھر کسی کو آپ نے عمران خان کی طرح چندہ خور اور الطاف حسین کی طرح بھتہ خور ھی سمجھا ھوا ھے !
    نوازشریف کی فیملی پاکستان کی چند امیر فیملیوں میں سے تھی اس وقت سے جب وہ سیاست میں بھی نہیں تھے- ٹیکس ریٹرن سارے بزنس مین فائل کرتے ھیں اگر کوئی ریٹرن چاھیئیں تو ایف بی آر سے رجوع کریں یہاں ٹکریں نہ ماریں

    ReplyDelete